ابھی وہ آنکھیں ہیں سلامت لبریز ہیں جن کے پیمانے درؔاز کیوں بجھائے تم اپنی پیاس بیٹھے ہو اے کاش کہ وہ آ جائے اور کہے پیشانی چُوم کے ابھی میں زندہ ہُوں میری جان تُم کیوں یُوں اُداس بیٹھے ہو