ہر قدم پر با وفا پاتا
کبھی نہ ڈگمگاتے قدم میرے
اگرچہ زخم آتے اس قدر
جان لبوں پر میری آ جا تی
پھر بھی صدا اپنا طلبگار پاتا
اے کاش کبھی وہ آزماتا مجھے
ہر دم کِھلے رہتے ہونٹ میرے
چاہے دُکھ کُملا دیتے میری ساری خوشیوں کو
اُسے زندگی کی خوشیوں سے آشنا کرنے کے لیئے
اپنے لبوں کی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر سجاتا
اندھیرے میں رہ کر بھی اُسے نئی روشنی دیتا
اے کاش کبھی وہ آزماتا مجھے
دیتا اگر کچھ ساعتیں
پیار بھری ارمانوں کی بانہوں میں جھولتیں
پھر کیونکر
زندگی سے یُوں مایوس رہتا
شب بھر آنسو سجوتا
اے کاش کبھی وہ آزماتا مجھے