اے گل فروش تو گل بیچتا ھے
Poet: SHABEEB HASHMI By: SHABEEB HASHMI, Al-Khobarاے گل فروش تو گل بیچتا ھے
 پھر یہ آنکھوں میں کیوں نمی ھے
 ھاتھوں میں ھے بہاروں کا مسکن
 ھونٹوں پہ تبسم کی کیوں کمی ھے
 
 پھولوں پہ تازگی ھے
 پر چہرے پہ کیوں ویرانی
 کلیوں پہ ھے مسکراھٹ
 نظروں میں کیوں حیرانی
 
 خشبؤ ھے تیرے اطراف میں
 پر تم کیوں خفا لگتے ھو
 گلدستے ھیں ھاتھوں میں تیرے
 پر ان سے جدا کیوں لگتے ھو 
 
 ساری باتیں سن کے میری
 وہ گلفروش پھر یوں بولا ۔۔۔۔۔۔۔ 
 
 بھیا یہ دیکھنے میں ہیں پھول
 پر اک طوفان بیچتا ھوں 
 ماں باپ کی خواہشیں
 بہنوں کے ارمان بیچتا ھوں
 
 اسکول جانے کی عمر میری
 پر گھر سے نکل پڑا ھوں
 پھولوں کو بیچتا ھوں 
 ھر چوک پر کھڑا ھوں 
 
 بوڑھا ھے باپ میرا 
 ماں آنکھیں کھو چکی ھے
 مقدر پہ ھو کے قرباں
 بہن مٹی میں سو چکی ھے
 
 کھانے کو کچھ نہیں ھے
 چولہا پڑا ھے ٹھنڈا
 کرتا ھوں جو بھی کام
 ھو جاتا ھے وہ مندا
 
 اب پھول نہ میں بیچوں بھیا
 پھر اور کیا میں بیچوں
 خون جگر کو بیچوں 
 یا دل اور نظر کو بیچوں
 
 شرمندہ ھو تے ھوئے بھی
 کچھ بھی نہ کر سکا میں
 دکھ آنکھوں میں لے کر اسکا
 بس گھر کو نکل پڑا میں
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے







