باتوں باتوں میں جب ذکر آیا جدائی کا
اس نے سوال کر دیا اپنی رسوائی کا
اس کا افسردہ چہرہ آج بھی یاد ہے
ہو رہا تھا تزکرہ جب بےوفائی کا
بچھڑنے کا سبب تو معلوم نہیں ہمیں
دے گیا ہے وہ درد اپنی شناسائی کا
ملتی ہیں وسعتیں ہمارے دکھوں کو اب
نام آتا ہے لبوں پر جب اس ہرجائی کا
چھپا لیا ہے اسے اپنے سینے میں
آ جائے نہ الزام اس پر آشنائی کا