گویائی سے اظہار ہوا سوچ گہری فکر رکھتی ہے
خاموش ہو بھی جائےمگر پھر بھی نظر رکھتی ہے
سچی بات کڑوی ہوتی تو ہے مگر جگر رکھتی ہے
نکلتی ہے جو دل چیر کہ نہ پھر زیر زبر رکھتی ہے
اگرچہ بات ہو تیری لا جواب کیا ثمر رکھتی ہے
طبقہ سے تعلق تیرا چولہا جلنے کی جو فکر رکھتی ہے
اسکی گری ہوئی ہو بات پھر بھی شمس و قمر رکھتی ہے
یہ کلاس دولت کی گرمی جیبوں میں ساتھ رکھتی ہے
نظر میں ہو وقعت تو نا سمجھ کی بات بھی وزن رکھتی ہے
چاہے جستجو اور عقل وفہم سے اری ہو ذات اثر رکھتی ہے
دل میں بسے کوئی اس کی بات گوہر نایاب رکھتی ہے
نہ ہو جگہ دل میں کیا تعلیم کیا تجربہ بکواس رکھتی ہے
نہ دو مشورہ کسی کو یہ بات دو دھاری تلوار رکھتی ہے
بد ہو تو تنقید ہو جائے بھلاتو اپ اچھی تقدیر رکھتی ہے