Add Poetry

بات زباں سے کیا نکلے

Poet: Wamiq Kakakhel By: Wamiq Kakakhel, Rawalpindi

بات زباں سے کیا نکلے اور چہرے کیا سمجھائیں یارو
کب تک جھوٹ یوں بولتے رہیے آؤ جدا ہو جائیں یارو

دیواروں پہ شیشے سجا کر خود کو ہر سو دیکھنا چاہو
پستی کا احساس ہے یہ بھی کس کس کو سمجھائیں یارو

چادر اوڑھو آگہی کی اور اپنے اندر جھانک کے دیکھو
ہم پاگل ہیں سودائی ہیں تم کو کیا سمجھائیں یارو

کیا کیا ساماں تم نے کئے ہیں کایا کےاس جال میں پھنس کے
دل کے شیشے بھی تو سنبھالو دیکھو ٹوٹ نہ یارو

خود بینی و خود آرائی چاٹ رہی ہے گھن کی مانند
ذات کے خول سے باہر نکلو تم کو لوگ بلائیں یارو

جی چاہے بے حس ہو جائیں آنکھیں اپنی اندھی کرلیں
کب تک سوچیں کب تک بولیں کب تک جان جلائیں یارو

وامق کو تو خون رلادے بے توقیری انساں کی
جیتی جانیں بھوکی ننگی مردے لوگ سجائیں یارو

Rate it:
Views: 300
24 May, 2010
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets