بات نہ کرو ہم سے آشنائی کی
آشنائی نے ہی تو رُسوائی کی
حد کردی میں نے مجبوری میں
کس قدر تو بے حیائی کی
جان بُوجھ کر اُسے درد دیا
کیا کیا کہہ کر لڑائی کی
کہا محبت نہ تھی تمہیں کبھی
تم نے محبت میں خود نُمائی کی
سادگی سے کیسے بتاتے اُسے
کہ گھڑی آ گئی ہے جُدائی کی
بیاں کیونکر ہوتا زُباں سے
کہ عادت ڈال لو شکیبائی کی
تصورات بد گماں ہونے والے ہیں
عمر بیت گئی ہے رعنائی کی
اب کیسے سجا کرے گا وہ
اُسے تو بڑی لگن تھی زیبائی کی
نہ چمن مہکے گا اب کبھی بھی
یہ ساری بات ہے تنہائی کی
میدانِ انصاف میں ہار آیا ہوں
نہ کہی سُنی گئی شیدائی کی