کیا بادل ، کیا کالی گھٹا چھائی ہے
پھر سے جیسے ماضی کی سسک بھر آئی ہے
میرے چھت پہ بارش گر رہی ہے ٹِپ ٹِپ
جیسے طوطا، مینا کی بارات کہیں دور سے آئی ہے
تجھے یاد کرنے کا موقع دل نے جانے نہ دیا
لگتا ہے آج پھر کوئی قیامت بھرپائی ہے
اے موسم تو کس کو یاد کرتا ہے اس طرح
ہمیں تو عادت ہے، ایسے ہی آنکھ بھر آئی ہے