اس دیارِ غیر میں
اکژ گبھرا کر ہم نے
زمانے کی تپتی دھوپ سے
تیرے تصور کی
ٹھنڈی چھاؤں میں
پناہ لی ہے
جانے یہ فعل
غیر ارادی فعل
ہلچل سی کیوں مچا دیتا ہے
تجھے آواز دیتا ہے
اور
اس آواز کی بازگشت
آس کی زنجیر میں
بندھ کر اپنا آپ
تمہارے حوالے کر دیتی ہے