باز گشت

Poet: kanwal naveed By: kanwal naveed, karachi

کیسے دلکش تھے سپنے جو ٹوٹ گئے سارے
حسن کا انجام ہمشہ سے ہی خراب ہوتا ہے

کوئی دُعابھی مقبول نہ تھی تو کہا دل سے
تو نہ غم کر کہ ہمیں حاصل ثواب ہوتا ہے

ڈر لگتا ہے مرنے سے کہ رب کیا کرے گا وہاں
دنیا میں جو ایسا ایسا عذاب ہوتا ہے

نہ ماضی کو کوئی غم ہے نہ یاد ہے باقی
یہاں ہر روز ہی نیا رقم ایک باب ہوتا ہے

کہتا نہیں سنائی دیتی ہے یہی بازگشت
کوئی ہم سا بھی یہاں بے تاب ہوتا ہے

وہ جسے جوتوں میں بیٹھاتی ہے دنیا
ماں کے لیے وہ بیٹا بھی نواب ہوتا ہے

ہماری نظر میں ہیرا تھا نہ مل سکا ہم کو
کانچ کہاں اس قدر کنول نایاب ہوتا ہے

 

Rate it:
Views: 485
20 Jun, 2013