بتا تو سہی تیرا مدعا کیا ہے
کیوں مجھے خود سے جدا رکھا ہے
وفاوَں میں کہاں خطا ہو گئی
جو دریا شکووں کا بہا رکھا ہے
کبھی اُس نے بھی کہا ہاں ہم نے بھی
صرف تمہیں ہی دل میں بسا رکھا ہے
تیری جدائی میں حالِ دل یہ ہے
خود کو خود سے بھی خفا رکھا ہے
آوَ اب لوٹ چلیں یہاں سے جہاں
اس ویراں بستی میں کیا رکھا ہے