میں تو ہوں تری تخلیقِ ذرات
مری سرکشی سے تو نالاں کیوں ہے
عدم سےچلا ہوں حیراں و پریشاں
منزل یہ نہیں تو پھر دنیا کیوں ہے
گن گن دیتا ہے آدمی دانہ ِ اناج
مٹی کے بتوں کے درمیاں خدا کیوں ہے
نہیں یقیں اسےوفا کا میری عرفان
شروع و آخر یہ عہد و پیما کیوں ہے