لہجے بھی بدل جاتے ہیں
رویے بھی بدل جاتے ہیں
برسوں سے جو چلے تھے پکڑ کر دامن جن
ہائے وہ لوگ بدل جاتے ہیں
راشتوں کی نزاکت کو تو خوب سمجھا اعجاز
نہ جانے کیوں سب نظریں ہی بدل جاتے ہیں
بدلتے موسم،بدلتی ہوائیں تو سنا میں نے
کیا خبر تھی کہ لوگ چہرے بھی بدل جاتے ہیں
کبھی محبت کا نام دے تو کبھی نفرت کا
ہر بار دھوکا دینے کے انداز بھی بدل جاتے ہیں
جب جانا ہی تھا سب نے ایک ہی منزل پر تو
کچھ دیر ساتھ چل کر راستے بھی بدل جاتے ہیں
اب نہ اُمید وفا رکھنا تم کسی سے میرے اپنوں
یہاں تو وفا کرنے کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں
مجھے غیروں نے لوٹا یہاں پیار کا دلاسہ دے کر
غیر تو غیر ،اپنے بھی بدل جاتے ہیں
جن کا ساتھ تھا کنارے پر
جب آئی منجدھار میں کشتی تو ارادے ہی بدل جاتے ہیں