بربریت کی نہ دیکھی اک مثال
شرم سے شیطاں کے عارض تھے گُلال
شرم خارج کو نہ کوئی آئی تھی
خوں بہا کر ہو گیا جیسے نہال
جانور تُجھ سے ہیں بہتر خارجی
ہاتھ بچوں پر اُٹھے کس کی مجال
کیوں محافظ جان پائے ہی نہیں
بھیڑئیے تھے انس کی پہنے تھے کھال
دفن کر دے بھیڑیوں کو، کھا نہ لیں
تیرے بچے، چل اُٹھا لے تُو کُدال
مانتا ہوں جو گئے ہیں، سب شہید
بھولنا مت کیوں ہوا لیکن وصال
ہیجڑوں کی فوج ہی بھرتی نہ کر
ڈھونڈھ بستی میں کہیں ہوں گے رجال
اس مُصیبت سے نکلنا ہے تو سُن
سانپ اپنی آستینوں سے نکال
دوسروں کی جاں بچانے چل پڑا
چل پلٹ اپنی کہیں پہلے سنبھال
آگہی اسباب کی ہے ناگزیر
قوم پر آیا تھا کیسے، کیوں زوال
کُچھ خُدا کا خوف کر اظہر کہیں
کیا بنے گا، آ گیا اُس کو جلال