کیاکیا نہ گزری ہم پہ برسات کہ ہاتھوں
خزاں کی ویرانی تھمی ہے کبھی برسات کہ ہاتھوں
جذبوں میں سیلی حدت آنکھوں میں نمی کی جلن
اب کہ توآگ ہی سلگی برسات کہ ہاتھوں
مقطع
ایسی کوئی سوچ ذہن میں پلتی ہی نہیں
کیسے پہنچاوں اسے گزند اپنے ہاتھوں
اسکی اجلی پیشانی پہ کئی گہن نہ ہو
ترک تعق کا کیا اپنے ہاتھوں