طویل عرصہ رہا آنکھوں میں برکھا رُت سا موسم
مگر ہے اب اِنھی آنکھوں میں خشک سالی سی
بولنا بھول گیا رہا کرتا ہوں گُم سُم گُم سُم
یوں کبھی ہم بھی چہکتے تھے نہ تھا کوئی غم
عہدِ وفا بھول گیا وہ جو کیئے تھے پیہم
اندھیرا چار سُو غم کا چھائی ہے گھٹا کالی سی
اتفاق کیسا نہ رہے ہم تم تم ہم
ساتھ اُس کا تھا بہار رُت سا موسم
چُھڑا کے ہاتھ مقدر کر دیا خزاں رُت سا موسم