خرام خرام جب سے آشنا ہونے لگے ہیں
محوِ بے خودی ہے ہوش تک کھونے لگے ہیں
عجب اندازِ محبت ہے،عجب ہے احساسِ جستجو
موت کے سوداگر بھی اب زندگی کو چھونے لگے ہیں
عزت شہرت،سب یہ کام کہاں اب ہے
پرواز عروج بھی اب تو پرندے بھی کھونے لگے ہیں
سر تیغ سے کٹتے تھے اف تک نہ ہوتی تھی
کانٹے کی چبھن پر اب عرصہ تک رونے لگے ہیں
چرخِ کہن بھی ساگر جن کی دہشت سے لرزتا تھا
شجاعت ختم ہو گئی بذدل سے ہونے لگے ہیں