معلوم ہے، عبث ہے، پھر بھی مَیں کھوجتا ہوں
ہر منظر وَ ہر جگہ پر، بس تجھ کو ڈھونڈتا ہوں
محسوس ہوتا ہے کہ، شاید ہو تم یہیں پر
تم کو طرح بَہ طرح ، تصور میں دیکھتا ہوں
مصروف ہی رہوں یا، فارغ ہی کیوں نہ بیٹھوں
سوتے میں، جاگتے میں، تجھ ہی کو سوچتا ہوں
آواز تیری اکثر، سنتا ہوں غائبانہ
غائبانہ پوچھتا ہوں، غائبانہ بولتا ہوں
الزام بھی دوں کس کو، مجرم تو سب ہیں باہم
تقدیر، وقت، قسمت، پر خود کو کوستا ہوں
اپنی الگ بنالی، دنیا عجب سی دل نے
خود کو مناتا ہوں جب، خود ہی سے روٹھتا ہوں
تُو گیا وہاں، جہاں سے، اب تک نہ کوئی لؤٹا
جانوں مَیں یہ بھی لیکن، لؤٹانا چاہتا ہوں
کہتے ہیں لوگ، تجھ کو، اب بُھلا کے آگے بڑھ لوں
آتا ہے غصہ تاہم، یُوں تنہا بیٹھتا ہوں
یہ لگتا ہے کشّالی، ہو رہا ہوں نیم پاگل
یا پھر یہ کیا ہے گڑبڑ، کیا بُھولا یہ بُھولتا ہوں