بقا کا سفر
Poet: مونا شہزاد By: Mona Shehzad, Calgaryحضرت انسان جو کرنا ہے بقا کا سفر
کر خود کو عاری فنا کے ڈر سے
کر لے یاری علم و ادب سے
ہوجائے گی بهاری تیری سواری
یہ گیسوئے محبوب کی چهاوں چھوڑ دے.کر لے حب فن و ہنر سے
گزر گئی عمر ساری اسی صحرا کی خاک چھانتے
اب تو جاگ جا اور جی لے زندگی
قطرہ قطرہ مت ترس
دریا کو کوزے میں بند کر کے پی لے
حضرت انسان جو کرنا ہے بقا کا سفر
کر خود کو عاری فنا کے ڈر سے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






