اگر وہ کرتا نہیں ہم سے محبت
تو ہم کوئی زبردستی تو نہیں کر سکتے
یوں تو چلا رہے ہیں طوفانوں میں کشتی
لیکن طوفانوں سے دوستی تو نہیں کرسکتے
بڑا بے چین کر جاتی ہیں خاموشیاں ہمیں
اب ہم تنہائیوں سے دشمنی تو نہیں کر سکتے
وہ کتنا سادہ اور کتنا گہرا ہے
سرے عام ُاس کی مخالفت تو نہیں کر سکتے
نجانے صبر کی کس انتہا پر ہمیں دیکھنا چاہیتا ہے
بناء غلطی کے ہم خود کو مجرم تو نہیں کر سکتے
اک خطاء کی کیا اتنی ملنی تھی سزایئں ہمیں
جانتے اگر تو وہ خطاء ہم بھول سے بھی کر نہیں سکتے