کھِلکھلاتے دِل کو بنجر میدان کر گئے
امریکی جیسے جنگ میں جاپان کر گئے
جو لوگ حاضری میں کنجوس تھے بہت
اکر وہ میرے سوگ پر! حیران کر گئے
کیسے تھے ہمسفر جو سرابوں میں چھوڑ کر
اِک قافلے کی پیاس پر احسان کر گئے
بوندوں کی اوٹ میں کُچھ غمزدہ سے لوگ
برسا کے آنکھیں! بارشیں گُنجان کر گئے
بھیانک ہیں اسقدر کہ جنگل میں ہیں ممنوع
شہروں میں ایسے کام بھی انسان کر گئے
بیٹھے رہے وہ خواب میں آ کر تمام رات
ارژنگ وہ تُجھ پر پھر سے احسان کر گئے