رکھنے دو بند ہونٹوں میں مجھے میری کہانی
مت پوچھو خدا کا واسطہ یہ داستاں میری زبانی
شمع محبت کی جلتی رہی روشنی بھی نا ہوئی
کردی گئی بےرحمی سے میری وفا رائیگانی
دیا تھا دل توڑ گیا دل کر دیا تنہا دل
کب ملا کہاں ملا مت پوچھو پر تھی میں اسکی دیوانی
ڈوبنے کو تو اس دن بھنور ہی کافی تھا میرے لیے
کیا بتاؤں اس دن کیسی تھی دریا کی روانی
فقط مجھ سے ہی دور رہا اس کا لمس
ہوا چوم کر دے گئی اسے اپنی نشانی
کیوں میں اس کا نام لے کر بیاں کروں قصہ
وہ میرا لاحاصل تھا لاحاصل کے مت پوچھو معانی
میرے حصے میں اس کی رفاقت کے دو دن تھے
ارے چھوڑو کوئی نئی کہانی پڑھو میری کہانی ھے بہت پرانی