بن ہو، ابر ہو، تیز ہوا ہو
تیرے حُسن کا دِیا جلا ہو
پو بھی پھٹی، طوفان بھی اُٹھا
اب کوئی کیا جانے کیا ہو
آج کی کلیاں کب چٹکیں گی
شاید مستقبل کو پتا ہو
چاند بھی ساکن، وقت بھی ساکن
شاید توُ کچھ سوچ رہا ہو
پت جھڑ میں کیوں پھوُل نہ ڈھونڈے
جس نے تجھے کھو کر پایا ہو
بیلیں سی بَل کھاتی ہیں جب
کوئی سہارا ٹوٹ چلا ہو
توُ نے یوُں شرما کر دیکھا
جیسے تھک کر دِیا بُجھا ہو
میری تنہائی کی دُعا ہے
تیرے ساتھ بھری دُنیا ہو
وقتِ سحر یوُں کلیاں چٹکیں
جیسے تیرا نام لیا ہو
انساں کا معیار یہی ہے
خُوب دُکھی ہو، خُوب اچھا ہو
دِیے بُجھے ہیں، پھوُل کھِلے ہیں
شاید یہ شاہراہِ صبا ہو
تو کہتا ہے تارا ٹوُٹا
اور اگر آنسوُ ٹپکا ہو