بوسیدہ جسم و جاں کی قبائیں لیے ہوئے
صحرا میں پھر رہا ہوں بلائیں لیے ہوئے
دل وہ عجیب شہر کہ جس کی فصیل پر
نازل ہوا ہے عشق بلائیں لیے ہوئے
میں وحشت جنوں ہوں مری مشت خاک کو
پھرتی ہیں در بہ در یہ ہوائیں لیے ہوئے
دیکھا بغور اپنی خودی کا جو آئنہ
ابھرے ہزار چہرہ خطائیں لیے ہوئے
اک شور گونجتا ہے مسلسل خلاؤں میں
ہے لفظ کن بھی کتنی صدائیں لیے ہوئے