میں کچھ کچھ بھولتا جاتا ہوں اب تجھ کو
تیرا چہرہ بھی دھندلانے لگا ہے اب تخیل میں
بدلنے لگ گیا ہے اب وہ صبح شام کامعمول
جس میں تم سےملنے کا بھی اک معمول شامل تھا
تیرے خط آتے رہتےتھے
تو یاد رہتے تھے مجھکو تیری آواز کے سر بھی
تیری آواز کو کاغذ پہ رکھ کے
میں نے چاہا تھا کہ پن کر لوں
وہ جیسے تتلیوں کے پر لگا لیتا ہے کوئی اپنی البم میں
بہت دن ہو گئے دیکھا نہیں
نہ خط ملا کوئی
بہت دن ہو گئے
سچی
تیری آواز کی بوچھاڑ میں بھیگا نہیں میں
میں کچھ کچھ بھولتا جاتا ہوں اب تجھکو