اکثر ایسا ہوتا تھا
ان کھٹی میٹھی کھٹ پٹ میں
کسی کو روٹھنا
تو کسی کو منانا ہوتا تھا
بچپن کے دن بھولے سے نہیں بھلا پاتا کوئی
وہ نکڑ کی دکان سے
کوکا کولا کی بوتل کے لئے
امی کے آگے بسورنا ہوتا تھا
پولکا آئیسکریم اور اگلو کی کون
کی خاطر اچھے بچے بن جاتے تھے
وہ روز نت نئی شرارتیں کرنا
پھر دادی کی گھرکیا بھی کھاتے تھے
ہم بچے تھے شریر
پر سب کی آنکھ کا تارا تھے
بچپن کی یادیں ہوا ہوئیں
بے فکری کے دن بھی
سب خواب ہوئے
پر بھولے سے جب یاد کا دروازہ کھلتا ہے
من پھر سے بچہ بن جاتا ہے
ہمکنے لگتا ہے وہی سب کچھ کر گزرنے کو
جو اب یادِ ماضی کا حصہ ہے