بچپن کے نام خط
Poet: یاسر یونس By: Yasir, Riyadhساری دنیا سے بات کر لی ہے
اب مجھے خود سے بات کرنی ہے
میں نے اک خط لکھا ہے بچپن کو
لوٹ آنے کی التجا کی ہے
اس میں باتیں ہیں کچھ شرارت کی
عقل و دانش کی گفتگو بھی ہے
دوستوں کا بھی ذکر ہے اس میں
دشمنوں کی بھی کچھ خبر لی ہے
کچھ نصیحت ہے اپنے آپ کو بھی
یہ روایت تو خاندانی ہے
ذکر ہے اس میں کچھ حسینوں کا
شوخ، چنچل سی اک پری بھی ہے
یہ بھی لکھا ہے عشق مت کرنا
اس بلا نے تو جان لے لی ہے
بے وفائی، جدائی، تنہائی
عشق کی بس یہی کہانی ہے
وصل کا دن تو مختصر ہے مگر
ہجر کی رات جاودانی ہے
زندگی میں کئی مسائل ہیں
یا مسائل میں زندگانی ہے
ریت کا ڈھیر ہے سمندر میں
کبھی صحرا میں صرف پانی ہے
زندگی مختصر سی ہے لیکن
اس کو جینے سے جان جاتی ہے
عمرِ رفتہ ہے اور عقلِ سلیم
ایک جاتی ہے، ایک آتی ہے
میرے خط کا جواب بھی آیا
اس نے لکھا کہ دیر کردی ہے
عشق کرنا بھی اختیار میں ہے؟
یہ عمل غیر اختیاری ہے
جس کسی راہ کو چنوں، آخر
وہ تمہاری طرف ہی آتی ہے
ایک چوراہے پر کھڑا ہوں میں
ہر گلی ہی اُدھر کو جاتی ہے
زندگی کی یہی حقیقت ہے
موت آنی ہے، جان جانی ہے
زندگی ایک گول چکر ہے
انتہا بھی تو ابتدا ہی ہے






