بچھڑے ہوۓ لوگوں کی صدائیں رُولا دیتی ہیں
کچھ پردہ نشینوں کی ادائیں رُولا دیتی ہیں
کسی کو راس آ جاتی ہے بد دعائیں دوستوں کی
کسی کو اپنوں کی دعائیں ہی رُولا دیتی ہیں
الزام نہ دو کس کو تم اُس کی بے وفائی کا
چاہنے والوں کو اپنی ہی خطائیں رُولا دیتی ہیں
ہزار غم سہہ کر بھی جو رہتا ہے محبت پر قائم
ایسے وفادار لوگوں کی وفائیں رُولا دیتی ہیں
ہم شاخ سے ٹوٹے ہوئے وہ بدنصیب پتے ہیں
مسعود جنہیں ہر موسم میں ہوائیں رُولا دیتی ہیں