بچھڑ کر بھی ترے چہرے پہ اطمینان کیسا ہے
میں ساجد سوچتا رہتا ہوں تو انسان کیسا ہے
پرندوں سے ہوئیں خالی منڈیریں ، پھول سے شاخیں
یہ کیا رت ہے ، یہ شہر دلبراں ویران کیسا ہے
کھلے ہیں تختیوں پر اجنبی ناموں کے گل بوٹے
یہ موسم آشنا گلیوں میں میری جان کیسا ہے
نہیں آتی کسی امید کے قدموں کی آہٹ بھی
کہاں ہیں لوگ اس گھر کے ، یہ دل سنسان کیسا ہے
رگ و پے میں سرِ شب کیسی شمعیں جھلملاتی ہیں
اجالے کا سفر شریان در شریان کیسا ہے
میں بابِ شہر سے نکلا تھا ساجد موسم گل میں
نجانے ان بہاروں میں مرا ملتان کیسا ہے