بڑھ ہی جاتا ہے محبت کا اثر شام کے بعد
ایک وحشت سے بھرے لگتے ہیں گھر شام کے بعد
تُو بھی سمجھے کہ محبت کی اذیت کیا ہے
کر کبھی میری طرح تُو بھی سفر شام کے بعد
تُو ہے مہتاب تو پھر دل میں اتر رات گئے
تُو ہے خورشید تو کچھ دیر ٹھہر شام کے بعد
آ کے بیٹھے ہیں ابھی شاخ پہ تھک کر پنچھی
آخری جیسے سہارا ہوں شجر شام کے بعد
جن پہ ہوں دن میں کئی رونقیں دیکھا تم نے
کتنے سنسان سے لگتے ہیں وہ در شام کے بعد
جنگوں سے مجھے آتی ہے صدا کون عقیل
شاخساروں سے تمہیں آئے نظرشام کے بعد