بڑی جاں لیوا ہے یہ پہلو تہی اُسکی
اب سہی نہیں جاتی ہے بےرُخی اُسکی
وہ اُداس چہروں کو ہنسی دیتا تھا
بھولی نہیں یہ بات آج بھی اُسکی
آج اندھیروں میں چھپا بیٹھا ہے
ستاروں سے مزّین تھی زندگی اُسکی
بادِ نَو بہار کا جھونکا گزر گیا
بازگشت فضا میں رقصاں رہی اُسکی
وہ رونق ِ محفل مسرتوں کا پیکر
بہت قابل ِ دید ہے تابندگی اُسکی
گردشِ حالات میں ایسے بھی دن آئے
میری سنی اُسنے نہ میں نے سنی اُسکی
وہ لذتِ پرواز سے آشنا ایسا ہوا
نِگاہ نہ پھر مجھ پہ رُکی اُسکی
دو قدم بھی ساتھ میرے نا چل پایا
لےڈوبی پُھولوں سی ناز کی اُسکی
حسرت نہیں کوئی جو پوری نہ ہوئی
زندگی میں بس اِک ہے تو کمی اُسکی
چہرے پہ تبسم کا تاثر تو تھا مگر
کُچھ اور کہہ رہی تھی کپکپی اُسکی
دل ِ ناتواں نے ہر جتن کر دیکھا
پھربھی نہ پا سکے خوشی اُسکی
وہ جس حال میں رکھے گا جی لینگے
دل کو درکار محض ہے مرضی اُسکی
کھلی آنکھ میں بھی خواب ہیں اُسکے
وہ نہ آئے رضا چلو یاد ہی سہی اُسکی