پیا کی راہ تکوں دل یہ ڈوبتا جائے
مایوسیوں کے ہر اک سمت بڑھ گئے سائے
کیا تھا جن کے لیے میں نے آج سولہ سنگھار
تھا جن کے قدموں کی آہٹ کا شام سے انتظار
لو رات بیت گئی وہ مگر نہیں آئے
مایوسیوں کے ہر اک سمت بڑھ گئے سائے
سہاگ رات تھی یا غم کی رات تھی کوئی
مرے لیے نہ وفا کی سوغات تھی کوئی
ستم بتا مری تقدیر مجھ پہ کیوں ڈھائے
مایوسیوں کے ہر اک سمت بڑھ گئے سائے
انوکھے درد لیے یہ نئی سحر آئی
خموش لب ہیں مگر آنکھ میری بھر آئی
کروں میں کیا مرا دل بار بار گھبرائے
مایوسیوں کے ہر اک سمت بڑھ گئے سائے
سہیلیوں کو نہ بابل کو کچھ بتاؤں گی
مگر یہ درد بھلا کس طرح چھپاؤں گی
بڑی ہی چاہ سے دلہن بنی تھی میں ہائے
مایوسیوں کے ہر اک سمت بڑھ گئے سائے
پیا کی راہ تکوں دل یہ ڈوبتا جائے
مایوسیوں کے ہر اک سمت بڑھ گئے سائے