بکھرے پڑے ہیں ارماں

Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrisburg pa usa

بکھرے پڑے ہیں ارماں میرے پر تم کو اس سے کیا لینا
میرا جو چاہے حال ہو جگر تم کو اس سے کیا لینا

تم موج دریا کی ہو خوب تم موج کرو
ڈوبیں ہم یا تیریں مگر تم کو اس سے کیا لینا

ہاتھ پکڑ کے اوروں کا تمہیں راہ دیکھانی آتی ہے
تیرا ڈھوٹڈ رہے ہیں ہم کب سے گھر تم کو اس سے کیا لینا

دو دل کو تسلی کیوں یہ سسکیاں لیتا رہتا ہے
کیسے ہوا ہے خون جگر تم کو اس سے کیا لینا

چھوڑو اب بس رہنے دو مجبوری ہے مجھے منظور
رہوں پاس یا میں دور پر تم کو اس سے کیا لینا

ہوئے ناراض یونہی قلزم باتوں باتوں میں کوئی بات نہ تھی
اب آنسو بہا کے منائیں اگر مگر تم کو اس سے کیا لینا

Rate it:
Views: 772
30 Jul, 2010