بہت ہی مختصر ملا قاتوں کا سلسلہ رہا
کبھی میں جدا اور کبھی وہ خفا رہا
ھم رسم نبھاتے رہیں ہر بار ملنے کئی
اور وہ ھر رسم کو توڑ کے جاتا رہا
بہت ہی بھروسا تھا اپنی وفاؤں پہ جسے
وہ خود ہی بے وفا کی رسم نبھاتا رہا
امتحان جب بھی زندگی نے لیا جیسے
منہ مور کے دورجاتا رہا
پھر کچھ عیاں ہوا ھم پر
خدا سے مانگتے رہیں جسے
وہ بس ھم سے بہانے بناتا رہا