بھولتا ضرور گر ہوتا بھلانے کے قابل
آنسوں روکتا گر ہوتے درد چھپانے کے قابل
بلبل دل تجھے جھولا جھولاتا ضرور میں
اگر شاخ گل ہوتی بوجھ اٹھانے کے قابل
تیر خنجر سے خود کو بچایا پھرتی کے ساتھ
تیر نظر سے نہ تھے خود کو بچانے کے قابل
جیسے ہی گزرے گلستاں سے پکڑ لیا دامن
چھوڑ دو کانٹوں ہم کہاں ستانے کے قابل
صحرا میں ان کی آنکھوں کے وحشت سے بھرے ہم
اب رہے تمہیں کیا دیکھانے کے قابل
جو دل پے گزرتی ہے قلزم دل ہی جانتا ہے
ہم تو کچھ رہے نہ بتانے کے قابل