شب کی تنہائیوں میں ہولے سے
سرسراتی فضا ہوئی گویا
چاند نے دی مجھے ضیا اپنی
دور تاروں سے یہ ندا آئی
کیوں بھلا خود کو تنہا سمجھا ہے
تیرگی کیوں بسائی رکھی ہے
خواہشیں کیوں لگائے رکھی ہیں
کب تلک یوں اداس بیٹھے گا
کب تلک محو یاس بیٹھے گا
تو ہی رستے کا اب مسافر ہے
تو ہی خود اپنے دل کی منزل ہے
اب یہ تارے تمھارے ساتھی ہیں
ان کے جھرمٹ سے بانٹ لے خود کو
تیرے احساس کو جو تسکیں دیں
ان ہوائوں کے ساتھ لے خود کو
بھول جا جو ہوا تھا الفت میں
مان لے جو لکھا ہے قسمت میں
بھول جا تو نے اس کو چاہا تھا
بھول جا اس کا جو بھی وعدہ تھا