کوئی کلیم نہیں آج دہر میں ورنہ جبینِ حضرتِ انساں میں طور کی لَو ہے یہ اور بات کہ جلتا ہے قصرِ سُطانی یہ آگ آگ نہیں، پھوُٹتی ہوُئی پَو ہے بھَلا سحر بھی چھُپائے سے چھُپ سکی ہے ندیم گھٹا کے حاشیے پر آفتاب کی ضَو ہے