بھیجوں گا نہیں میں اسے اب زنہار خط
جب دیکھتا نہیں وہ مِرا ایک بار خط
کیا اس کو سناؤں دلِ مضطر کا ماجرا
کرتا ہے ایک خط کے وہ دو، تین، چار خط
اتنا ہے اثر میرے عشق میرے شغف میں
جاتا ہے ان کے پاس خود بے اختیار خط
قاصد کی ضرورت نہیں خط کے لیے ہرگز
جاۓ صبا کے دوش پہ ہو کے سوار خط
ہم کو فہد ملے وہ سبھی راہ گزار میں
یعنی لکھے تھے ہم نے جو گۓ سب بیکار خط