بہت اندر تک اداسی چهائی ہے
رونق ، خوشی نا میسر تنہائی ہے
اک پل میں گلا گھونٹ دیا میرے خلوص کا
وفا کے بعد بهی یہاں ملتی رسوائی ہے
وہ اور لوگ تهے جنہوں نے پا لیا محبت کو
ہم نے محبت کی خاطر دی دوہائی ہے
گردش ایام ختم ہو تو سکون ملے
ہر پل اک سزا میں اپنی حیات پائی ہے
میرے لبوں کے تبسم پر مت جا اے دوست
ہم نے خاموشی سے ندیاں بہائی ہے
جا ڈهونڈ شاید کوئی اور مجه سا مل جائے
ورنہ ہم نے تو اپنی قسمت آزمائی ہے