بہت سارے سوالوں کے جواب باقی ہیں
ابھی تو دیکھنے کئی ادھورے خواب باقی ہیں
وہ جنہیں اپنی آنکھوں نے ابھی تک دیکھا ہی نہیں
ابھی وہ سارے ان دیکھے ہمارے خواب باقی ہیں
پیاس کے صحراؤںمیں دِلاسہ دینے کے لئے
اوجھل بہت سے نظروں سے سراب باقی ہیں
جو تمہاری راہوں میں نچھاور کئے جانے ہیں
ابھی وہ سب حسیں نایاب کِھلتے گلاب باقی ہیں
بھلا کیسے تمہارے ساتھ ہم بےباک ہو جائیں
کہ اپنے درمیاں ٹھہرے ادب آداب باقی ہیں
ابھی ہم کسطرح اِکدوسرے پہ واضح ہو جائیں
ہمارے درمیاں حائل پردے، حجاب باقی ہیں
تم کہاں چلدیئے عظمٰی بھری یہ بزم چھوڑ کے
سبھی مہمان محفل میں ارے جناب باقی ہیں