بہت س خواب دیکھ رکھے ہیں مگر
نجانے کیوں کوئی تعبیر نہیں ملتی
اس قدر دھول پڑی ہے اس خواری میں
میرے چہرے س اب میری تصویر نہیں ملتی
بھٹکتا ہوں جنگلوں میں اندھیری راتوں کو
پھر بھی کیوں مجھے میری تقدیر نہیں ملتی
اس نے تو قسم اٹھارکھی ہے نہ ملنے کی
میں سوچتا رہتا ہوں کوئی تدبیر نہیں ملتی
غم ہی غم ہیں اس شکستہ مکاں میں
میرے دل کوخوشیوں کی جاگیر نہیں ملتی
تیری کتاب زندگی میں نے پڑھ کے دیکھ لی
اس میں میرے نام کی کوئی تحریر نہیں ملتی
ہر محبت کا انجام درد ہی کیوں ہے
کیوں کسی رانجھے کو ہیر نہیں ملتی