بیتے موسموں کی آگ
Poet: Asrar Ahmad Adraak By: Asrar Ahmad Adraak, Rawalpindiگزشتہ شب کی سیاہی بڑی گہری تھی
ہوائیں سرد، بے رحم، تند و تیز
بے ڈھب، بے ہنگم، بےترتتیب الفاظ پر مشتمل ایک پلندہ لئے
میں رات سے جھگڑنے والی
ان تند مزاج اکھڑ ہواؤں کے سامنے جا نکلا
کاغذوں لا وہ ڈھیر لئے، جن پر بیتے موسموں کے نقش کندہ تھے
درختوں پہ جھومتے پتے چونکے
پھر تالیاں بجا کر خیر مقدم کیا
شوخ ہواؤں نے سیٹیاں بجا کر حسبَ سابق مضحکہ اڑایا
جب میں نے
برسوں پرانی رات کی سسکیوں، سوکھے گلابوں اور خوابوں کو آگ دکھائی
شبَ تاریک کی سیاہی کو سرخ شعلوں سے منور کرنے کا عزم لے کر
یہ شعلے میرے خوابوں کی تعبیر تھے
ان کی حدت بڑی جان لیوا تھی
گزشتہ رات کی ٹھنڈک شدید تھی پھر بھی
ناتمام آرزوؤں، پچھتاووں اور پشیمانیوں کو جلا کر
میں گہری نیند سو گیا تھا
آنکھ کھلنے پر دیکھا
طوفانی ہوائیں
میرے گزرے برسوں کی راکھ لے کر جا چکی تھیں
میری گزشتہ رات کی دیوانگی سے بے خبر
مسکراتی شرماتی،اک نئی نویلی صبح میری منتظر تھی
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






