بیداریوں میں خواب دکھاتا رہا ہے وہ
الفاط کے گلاب کھلاتا رہا ہے وہ
دن کیا یہاں تو رات کو دم بھر لگی نہ آنکھ
اک آسرے پہ برسوں جگاتا رہا ہے وہ
آ کر گرا تو میرا بدن پاش پاش تھا
کتنی بلندیوں پہ اڑاتا رہا ہے وہ
کالے خیال سرخ مضامین میں ڈھال کر
ّعنوان روشنی کا سجاتا رہا ہے وہ
مفہوم سامنے ہے کتاب سیاہ کا
پڑھتا رہا ہوں میں جو پڑھاتا رہا ہے وہ
اس فکر اس خیال کو کیا نام دوں رشید
دوزخ کو بھی بہشت بتاتا رہا ہے وہ