کتنی بیدرد ہوائیں ہیں یہ
کس قدر بے خیالی میں درختوں
کو ہلاتی ہیں
زرد پتوں کو گرانے کے لئے
پھر یہی ہوائیں انہیں کہاں سے کہاں لے
جائیں گی اڑا کر
نہ منزل کی خبر نہ کوئی ٹھکانا ہو گا ان کا
یہ خزاں رسیدہ پتے
ادھر سے اُدھر بکھر جائیں گے
کچھ نہیں کہیں گے
پھر بھی اک کہانی
اس خاموشی میں کہیں تو ہو گی
مانا زندگی موت کی امانت ہے
ہمیشہ سے
پھر بھی اتنی
بیدردی سے نہ بکھرائے کوئی