مکمل اکتا چکا ہوں اس زندگی سے
لمحے کچھ فرصت کے چاہتا ہوں اس زندگی سے
دوست سارے چھوٹ گے دیکھتے دیکھتے
خوب مصروفیت جو پایا اس زندگی سے
بچپن کے خواب سارے مٹی میں دب گۓ
نوعمری میں زمہ داری کے بوجھ جو ملے اس زندگی سے
رفتہ رفتہ سب ہی چھوڑ گۓ زوال دیکھ کہ
پہلے کیا کوئی کم غم ملے تھے مجھے اس زندگی سے
حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ٹھیک ہے شان
ورنہ اتنا آسان نہیں ہے لڑنا اس زندگی سے