بیچنا ہے

Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, کوئٹہ

اپنے آبأ کا گھر بیچنا ہے
ہم کو پیارا ہے، مگر بیچنا ہے

بھوک بچوں کی ہمیں توڑ گئی
شعر کہنے کا ہنر بیچنا ہے

دل تو پہلو میں کبھی تھا ہی نہیں
تم خریدو گے تو سر بیچنا ہے

وہ گرانی ہے کہ اب اپنا وقار
لے کے آنا ہے، ادھر بیچنا ہے

بک گئے چاند ستارے کب کے
اب جو باقی ہے اثر بیچنا ہے

اپنے بیٹے کی کتابیں بھی مجھے
کیا کروں دیدۂِ تر۔ بیچنا ہے

جو مقفّل ہی ملا جب بھی گئے
ایسے مے خانے کا در بیچنا ہے

کچھ نہیں اپنی تمنّا کا لہو
رات اُترے کہ سحر، بیچنا ہے

خوف ایسا ہے مسلط حسرت
دھونس کے مارے یہ ڈر بیچنا ہے
 

Rate it:
Views: 251
19 Aug, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL