کبھی تو خود کو کبھی سائبان بیچ دیا
وہ تیرا آخری جو تھا نشان بیچ دیا
حصولِ رزق نے اتنا کی ذلیل اسے
غریبِ شہر نے اپنا مکان بیچ دیا
اس ایک بوڑھی سی عورت کا مر گیا شوہر
کفن کے واسطے بیٹا جوان بیچ دیا
کسی نے جھوٹ تھا بولا تو زر کمایا تھا
کسی نے زر کے لیئے ہی بیان بیچ دیا
ہر ایک جان کا اللہ نگہبان ہوا
محافظوں نے تو تیر و کمان بیچ دیا
امیرِ شہر نے کیسا کمال کر ڈالا
زمیں بکی نہیں تو آسمان بیچ دیا
اسے تو ڈر بھی خدا کا رہا نہیں آرب
متاع و مال پہ جس نے ایمان بیچ دیا