پچھلی رفاقتوں کو بھلا کر چلا گیا
دل بے سبب ہمارا دکھا کر چلا گیا
ہوجائے سب کو ترک تعلق کی نہ خبر
رسمن وہ ہاتھ ہم سے ملا کر چلا گیا
ہر آہ پر اندر سے ہے سینہ سلگ رہا
بے درد دل میں آگ لگا کر چلا گیا
اب دن کو چین اور نہ راتوں کو نیند ہے
سب کچھ یہاں سے کوئی چرا کر چلا گیا
مانگے کے چراغوں کا تو ہونا تھا یہی کچھ
تھے جس کے وہ چراغ اٹھا کر چلا گیا
اس کو تمام عمر کی رسوائی دے کے خود
اپنے بدن کی پیاس بجھا کر چلا گیا
انجم وہ اپنے جرم میں ماہر تھا اس قدر
سارے نشان اپنے مٹا کر چلا گیا