کی زندگی سے شکایت تو کبھی موت سے سر ٹکرا کے روئے
یاد کر گزری ہوئی باتوں کو تو کبھی سب کچھ بھلا کے روئے
اکثر یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں میں اب بھی اے دوست
کوئی نہیں رہا میرا تو کبھی کسی کے لئیےسب کچھ لٹا کے روئے
اب کے اس قدر غموں کی دنیا سے گہرا تعلق ہو گیا ہے میرا
چھوڑ دیا جب سب نے ستانا تو آخرکار خود کو ستا کے روئے
کچھ اس ویرانی بسی ہے میری سانسوں میں مبشر
کبھی محفل میں آنکھ بھر آئی تو کبھی تنہائی میں منہ چھپا کے روئے