بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لئے تھا
جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کِس کے لئے تھا
پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لئے ڈالی
باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کِس کے لئے تھا
جس خاک سے پُھوٹا ہے اُسی خاک کی خوشبو
پہچان نہ پایا تو ہُنر کِس کے لیے تھا
اے مادر گِیتی! تیری حیرت بھی بجا ہے
تیرے ہی نہ کام آیا تو سر کِس کے لئے تھا
یُوں شام کی دہشت سرِ دشتِ ارادہ
رُکنا تھا، تو پھر سارا سفر کِس کے لئے تھا